پاکستان میں ہرشخص، گروہ، جماعت یا ادارے نے دوسروں کے نظریات اور خیالات کی جانچ پرکھ کا اپنا ہی پیمانہ بنا لیا ہے۔ وہ اس ڈیڑہ گز کے طویل پیماٗشی آلے کے ساتھ ان کی پیماٗش کرتا ہے ۔ اگر یہ عین اس کے مطابق نہ ہوں تو اس کو توہین، گمراہ، غدار وغیرہ جیسے الفاظ کہہ کر ملامتی کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ یوں ہم اکیسویں صدی کی بجاٗے یورپ کے اندھیرے دور میں رہ رہے ہیں جہاں پر روشن خیال مفکرین، دانشوروں اور ساٗنس دانوں کے خیالات پادری اور پوح جانچتے تھے اور مجرم ثابت ہونے پرسزا دیتے تھے۔ خیالات کی بنا پر سزا دینے کا یہ یسا تباہ کن ہتھیار ہے جس نے لوگوں کو اپنے خیالات کے اظہار کے لیے روک دیا ہے ۔ تاہم حیرت اس بات کی ہے کہ جہالت سے بھر پور نام نہاد دانشور جو شہرت کے پچاری سوشل میڈیا پر غالب نظر آتے ہیں ایسی بکواس کرتے ہیں جن کا نہ سر ہے نہ پاوں مگر ان کو کھلی چھٹی ہے۔
ریاست پوری طرح پسپا ہو چکی ہے اور سمجھ نہیں پا رہی کہ اس کی روک تھام کیسے کرنی ہے۔ اس کو روکنے کے ہیے کہاں سے شروع کریں۔ کسی کے پاس کوٗی عالمی دلیل نہیں ہے جس کو تسلیم کر لیا جاے۔ جو بھی دلیل دیں اس کو رد کرنے کے لیے لوگوں کے پاس مصنوعی ذہانت سے بھر پور ذہن موجود ہیں اور سب کچھ غلط ثابت کر دیا جاتا ہے۔ لوگ ملک سے زیادہ اپنی قومیت سے پیار کرتے ہیں اور اپنی زبان اور خطے کو ترجیح دینا شروع ہو گیے ہیں یہ ملکی تقسیم کے لیے ایسا ہتھیار ہے جس کو توڑ دینا چاہیے۔ بد قسمتی سے ہماری اشرفیہ نے قوم بنانے کے لیے کچھ نہ کیا بلکہ قوم کو تقسیم کرنے کے لیے بہت کچھ کیا اور کر رہی ہے۔ وہ اپنے ہی مقاصد کے لیے پورے ملک کو داءو پر لگا چکی ہے۔
ہمیں اختلاف اور تنوع کے ساتھ رہنا سیکھنا چاہیے اور اپنے سخت گیر خیالات کو دوسروں پر ٹھونسنے سے گریز کرنا چاہیے چونکہ ہمارے اپنے سخت گیر خیالات کے اندر بھی تضادات موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ہم نے خیالات کے اپنے چکر میں رہنا سیکھ لیا ہے جس سے باہر نہیں نکلنا چاہتے چونکہ باہر ان کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قانون بری طرح کمزور ہو چکا ہے۔ جس کا جی چاہیے کسی پر فتوی لگا کر قتل کر دے یا اس کو کسی اور جرم پر خود ہی سزا دے۔
ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے ریاست کے اندر بہت سی ریاستیں بنتی جا رہی ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے گروہ طاقت ور ہوتے جا رہے ہیں اور مافیہ نما سیاسی قوت کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ موجودہ دور میں ریاستوں کا تباہ کرنے کے طریقے تبدیل ہو چکے ہیں اب ریاستوں کو تباہ صرف جنگی اسلحے سے نہیں کیا جاتا بلکہ میڈیا ایک اہم ہتھیار ہے۔ سنسنی پھیلانا، بد اعتمادی پیدا کرنا، افواہیں پھیلانا، پراپیگنڈا، عدم برداشت، وغیرہ بھی اس کے اہم آلات ہیں۔
جب ریاست کے اندر کوءی ادارہ ایسا نہیں ہو گا جس کا احترام کیا جاءے تو قانون بے بس ہو جاتا ہے اور ہر شخص آزاد ہوتا ہے، ہر گروہ آزاد ہوتا ہے۔ یہ من مانی ایک جنگل کے قانون کو جنم دیتی ہے جس میں صرف طاقت ور ہی زندہ رہتا ہے۔ یوں ایک خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوتی ہے جس میں سب سے زیادہ طاقت ور خود ہی ایک ریاست کو بناتا ہے۔ مگر تب تک کوءی اور طاقت مداخلت کرتی ہے اور لوگوں کو تباہی سے دو چار کرتی ہے۔
ہم سب کو پاکستانی کے طور پر سوچنا چاہیے۔ یہ اجتماعی سوچ ہمیں خانہ جنگی جیسے کیفیت سے بچا سکتی ہے اور ہمارے اندر اعتماد پیدا کر سکتی ہے۔ جب شہری خود اجتمای سوچنا شروع کرتے ہیں تو گروہی سوچ اپنی موت آپ ہی مر جاتی ہے۔ کبھی پنجابیوں کا قتل عام، کبھی پشتونوں کا قتل عام ایک ایسی ہوا کو جنم دے رہا ہے جو ہم سب کو ایک دوسرے کے بارے میں بد ظنی کو جنم دیتی ہے۔ اگرچہ پنجاب میں کوءی ایسی فضا نہیں کہ اس قسم کی لسانی سیاست کی جاءے ۔ اس لیے پنجاب میں یہ صورت حال پر سکون ہے۔ لیکن اگر اردگرد یہ واقعات زیادہ رونما ہوتے ہیں تو یہاں بھی سکو ن نہیں رہے گا۔
پاکستان کو جمہوریت سے زیادہ معاشی استحکام کی ضرورت ہے خواہ آمریت ہی ہو۔ معاشی استحکام ہی ہمیں ان سے بچا سکتا ہے مگر بد قسمتی سے کسی کو بھی تسلسل کے ساتھ حکومت کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ جس کے سبب آءے دن پالیسیاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ مسیحا کے منتظر قوم بھکاریوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ خود اعتمادی، اپنے ہی پاوں پر کھڑا ہونے کی عادت نہیں رہی ۔ اپنے آپ پر بھروسیہ کرنا شاید ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔
ایک لمحے کے لیے سوچیے اس قسم کی سوچ سے کیا ملے گا؟ ہمیں صرف تباہی ملے گی۔ تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خانہ جنگی ہو گی۔ کاروبار تباہ ہوں گے۔ اتنی بڑی آبادی والے ملک کو تباہ کرنے کے لیے کسی ایٹم بم کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے ہی ہتھیار اٹھاے ہوے لوگ کافی ہوں گے۔ اب بھی وقت ہے کہ اپنی سوچ کے پیمانے کو تبدیل کریں۔ لوگوں کو اس کے ساتھ ملا کر جانچنا بند کر دیں ۔ ایک ایسی مثبت سوچ کو جنم دیں جس میں دوسروں کے زندہ رہنے کی گنجاش ہو۔
یاد رکھیں آزادی کا تعلق معیشت سے ہے۔ جو ملک زیادہ امیر ہے اس کے پاس آزادی بھی زیادہ ہے ۔ اس کی عزت بھی زیادہ ہے۔ جس خاندان کے پاس دولت ہے اس کی عزت بھی زیادہ ہے اور اس کے پاس حقوق بھی زیادہ ہیں۔ جو شخص زیادہ امیر ہے اس کے حقوق بھی زیادہ ہیں اور آزاد بھی زیادہ ہے۔ غربت کی آزادی صرف تشدد کو جنم دیتی ہے۔ حالات کا ستایا ہوا شخص مزاحمتی اور تشدد پسند ہوتا ہے۔ جو رات کو سو نہیں سکتا اس سے دن کے اجالے میں امن کی توقع مشکل ہے۔ اس کے اندر چڑا چڑا پن اور شکایات ہوتی ہیں۔ ہم سب کو ایسی ہی رات کی ضرورت ہے جس میں خوف کے بغیر ہم سو سکیں۔